قریب آج سے بیس سال پہلے استاد محترم کے ایک ڈانٹ نے مجھے زنگی کی بہت بڑی سیکھ دی تھی - ہوا یوں تھا کے میں نیا نیا ہاسٹل گیا تھا - بچپن کا دور تھا - کسی کو بھی انگلی کرنا ایک پیدائشی حق جیسا معلوم ہوتا تھا - میرے والد اور والدہ محترمہ کو کبھی پسند نہ تھا کے میں انسے دور جاؤں - مگرمیرے ضد کے آگے مجھے روک نہ پاۓ - خیر آخر مے میری والدہ نے کہا "بیٹا ہاسٹل مے اپنا دھیان رکھنا اور یہ سوچنا کہ تمہاری ماں وہاں تمہاری حفاظت کیلئے نہی ہے تم خدکے ہی محافظ ہو - ویسے تو سبکا محافظ الله ہے "
ماں کی بات آی اور گی- ہاسٹل قریب ١٠٠ کلومیٹر دور تھا میرے گھر سے - راستے کی چکا چوندہ دنیا اور بس کے تیز ہارن سے دماغ کے سارے تار روشن تھے ایک دم مگن مے تھا - شام کو ہاسٹل پہچا اور داخلہ و دیگر کاغذی کاروائی کے بعد میرے بھائی اور والد لوٹ گئے - میں اکلیا تھا - رات مے مجھے ما ں کی بہت آئ - زندگی مے پہلی بار ماں سے ایسے الگ ہوا تھا -اس وقت میری عمر قریب آٹھ سال تھی - جیسے تیسے صبح ہوئی اور میں اٹھکے کلاس جانے کو تیار ہونے لگا - من بہت بھاری سا تھاایک ہی رات مے آنکھے سوج گئی تھی - پھر مجھے یاد آیا کے یہ ہاسٹل آنے کی ضد میری ہی تو تھی تو اب ملال کیوں - کیونکی میری ماں نے کہ رکھا تھا کے "بیٹا جا تو رہے ہو اپنے ضد پہ مگر کبھی ہاسٹل سے بھاگ کر مت آنا نہی تو پچھتاؤگے - میں ایک بھگوڑے کو گھر مے گھسنے نہی دونگی " ماں کی بات اور اپنی ضد یاد آئی -اور میں نارمل ہو گیا - ہونا ہی تھا اور کوئی چارہ بھی نہی تھا - ہاسٹل مے زندگی اچّھے سے گزرنے لگی اور میں خوب مزے مے رہنے لگا تھا -
مگر ماں کےاس سیکھ سے ایک دن واسطہ پر گیا جسمے انہونے اپنی حفاظت خود کرنے کو کہا تھا - میرے ایک استاد کے پاؤں مے درد تھا مینے کہ دیا کہ شاید آپ بہت تیز تیز بھاگتے ہیں اسلئے آپکا پاؤں اچک گیا ہوگا - استاد محترم بہت ناراض ہوے اور اکیلے مے بلا کر بہت ڈانٹا کھا کہ کیا تمہے گھر سے آتے وقت کسی نے بتایا نہی کے استاد سےکیسے پیش آنا ہے - مینے اسنے معافی مانگی اپنیغلطی پہ نادم ہوا اور پھر کبھی دوبارہ کسی استاد کی ناراضگی نہی جھیلی - یہ سب واقعہ کے پیچھے ایک دوسری وجہ تھی - ہوا یہ تھا کے جب میں اپنے گائوں پڑھتا تھا تو کہیں سے سنا تھا -
ماسٹر صاحب ماسٹر صاحب پان کھائیگا
کوٹھی پہ ڈنڈا مار کھائیگا------
بس کیا تھا گھر سے سڑک کے دوسرے جانب ایک ماسٹر صاحب رہتے جنسے میں گاؤں کے سرکاری اسکول میں پڑھنے جاتا تھا انکو جاکر یہ تکبندی سنا آیا - ماسٹر صاحب کے چہرے پہ غصّہ کی لالی کو میں تو نہی پڑھ پایا لیکن ایک شریف انسان نے یہ سب دیکھ لیا اور میری والدہ محترمہ کو سب بات بتا دیا - میری والدہ مجھپے بہت غصّہ ہوئیں اور کہا کہ میں دور سے دیکھ رہیں ہوں تم جاکر ماسٹر صاحب سے معافی مانگو - مجھے اس وقت نہ تواس تکبندی کے بارے مے زیادہ معلوم تھا اورنہ ہی اس معافی کے اس رسم کے بارے مے - بس اتنا پتا تھا کے ماں دورسے اسلئے دیکھ رہیں تھیں کہ کہیں ماسٹر صاحب میری پٹائی نا کردیں -
مگر یہ معافی اور ہاسٹل کی معافی مے بہت فرق تھا وہاں مجھے خودکا ہی محافظ بننا تھا اور دور سے ماں بھی نظر نہی آرہی تھی -
No comments:
Post a Comment